2,314

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے جو بکھرنے کے نہیں تھے

ہم تجھ سے کوئی بات بھی کرنے کے نہیں تھے
امکان بھی حالات سنورنے کے نہیں تھے

بھر ڈالا انہیں بھی مری بے دار نظر نے
جو زخم کسی طور بھی بھرنے کے نہیں تھے

اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے

کل رات تری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا
آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے

ان کو بھی اتارا ہے بڑے شوق سے ہم نے
جو نقش ابھی دل میں اترنے کے نہیں تھے

اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے

زکریا شاذ

اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں