614

سول ملٹری ڈائیلاگ آف ہدوانہ ریپبلک

کہتے ہیں، ایمپائر اور کھلاڑی جس ایک صفحے پر تھے، وہ پاٹ گیا ہے- جوان پوچھتے، سرجی! ہُن آرام اے؟ سرجی بولتے، میرے نال آپ مخول ہویا، سوہنا 22 سال تیاری کرتا رہا اب کہتا ہے سارا پیپر آؤٹ آف سلیبس ہے- چلو اگے سے ہم بھی (360 ڈگری یوٹرن لیکر) نیوٹرل ہیں- بندہ پوچھے 360 ڈگری یوٹرن؟ وہ نازک موڑ جس سے ملک 70 سال گزر ریا، اصل میں ایک گول چکر ہے؟ (کسی بھائی کو سمجھ آئے تو بتائے کہ ایں کیا چکر است)

سرجی نے جب اپنا (ریٹائرڈ زندگی عزت سے گزارنے کیلئے نیوٹرل ہونے کا) ارادہ، دو اور اداروں سے شئیر کیا تو تینوں
آبدیدہ ہو گئے- سرجی دکھی لہجے میں کہنے لگے، میں نہیں چاہتا میرے بعد ‘سرکار بنام سعد باجوہ و صابر مٹھو وغیرہ’ کے نوٹس جاری ہوں- چیرمین صاحب کہنے لگے سرجی پہلے ہمیں ریٹائر کر کے عمرے پر بھیجئے ہمارے گناہ ذیادہ ہیں- جسٹس سائیں ماریو پوزو کہنے لگے سرجی میری ریٹائرمنٹ میں تین مہینے رہ گئے اللہ دا ناں جے میرے تے نہ پا دینڑاں سب کچھ- سرجی نے فیض صاحب کی طرف دیکھا (کہ ہاں بھائی شاعرِجنوب نئے پاکستان کا خواب تنے ویکھا اِب تو ہی فال نکال کہ اس گوڈے گوڈے چِکڑ سے کیسے نکلیں ادارے؟)- فارمولہ وہی نکلا کہ ابھرتا عوامی غیظ و غضب ٹھنڈا کرنے کو قربانیاں دی جاویں- مگر قربانی دیں کس کی؟ فیض صاحب نے آئیڈیا دیا کہ ‘بُز’ کا مطلب بکرا اور ‘دار’ کا مطلب قربانی- سرجی مایوسی سے سر ہلانے لگے، سوہنا نہیں مانتا- فیض صاحب نے نظم ‘تین آوازیں’ کا شعر پڑھا:

پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے

سرجی لگے تو ہوئے کہ سوہنے! تُجھے ماننا پڑے گا ورنہ قربانی سے پہلے تیری قربانی ہو جائے گی، تیرے سے پہلے جو بندا ادھر وزیراعظم کی کرسی پر تھا اس پر بھی جرنل جولائی ہی بھاری پڑا-

وزیرداخلہ بریگیڈیئر اعجاز کا (منہ) استعمال کرتے ہوئے، سرجی نے بیان دیا کہ نوازشریف ضد نہ کرتا تو اب بھی وزیراعظم ہوتا (پپو یار ضد نہ کر جانے دے تھوڑی ہوا آنے دے)- پھر دوسرا بیان دیا (اعجاز شاہ کے ہی منہ سے) کہ (مفتی منیب والی دوربین سے) میاں صاحب کا نام ECL میں نظر نہیں آیا (ہارن دیں راستہ لیں)- پھر سرجی نے فیض صاحب کو بیچ میں قاصد ڈالا کہ می آں کو جا کر کہو ضد چھوڑے تو ہم اپنا نِکا نکال کر اسکا ڈالتے ہیں ٹیم میں- فیض صاحب گئے پھر باتاں چیتاں کرنے:

گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض صاحب نے باد نو بہار کا وعدہ کیا اور چلے بھی جاؤ کا وعدہ لیا تاکہ ملک کے سیاسی معاشی گلوں میں رنگ بھرے، سوہنے کی جگہ نِکا ٹیم میں وزیراعظم ڈالنے کیلئے باقی باتاں چیتاں ملکہ کے دیس میں کرنے پر اتفاق ہوا- اپوزیشن کہتی ہمیں کلئیر کرو، وہ کہتے دو سال جتنی محنت سے گندا کیا اب اتنا وقت تو لگے گا صاف کرنے میں (جلدبازی میں ہمارا کسٹمر بدک جاتا)- بدلے میں سرجی نے گارنٹی مانگتے ہیں، اپوزیشن کہتی پہلے میڈیا کا پٹہ اور عدالتوں کا کٹا کھولو اس پر، ہمیں بھی وقت درکار ہے سارا گند کپتان پر شفٹ کرنے میں (ہمارا بھی ووٹر شک میں پڑ جاتا اتنے تو ہاتھ ہوئے اسکے ساتھ)- ایک بات دونوں مانتے کہ ایسا سچا عاشق، مجنوں، رانجھا، رومیو صرف سوہنے کپتان کے پاس ہے جو تیز سے تیز یوٹرن میں بھی سپائڈرمین کی طرح قلابازی کھا کر بھی مائنڈ نہیں کرتا- کپتان آپ وی اولا اودے فین وی اولے-

اپوزیشن جو پہلے کہتی تھی، اسمبلی میں فیض کی شاعری پر پابندی لگائی جاوے، اب کہتی اچھا شاعر ہے- کمال کر دیا فیض صاحب نے، ویلڈنگ (ویلنگ ڈیلنگ) کے آئین سٹائن نکلے- کل مُنڈا سیالکوٹی (نیپال میں دھنیا کے جنگلات سے دوبارہ زندہ ہو کر) واپس اسمبلی میں تقریرا کہ الیکشن ہونگے ضرور ہونگے اور ہمیں کچھ ایسا پتا ہے جو حکومت کو نہیں حکومت کو تب پتا چلے گا جب سر پر آ گرے گی (ہائے سوہنا بھی یہی کہا کرتا تھا ماں صدقے)- انتہائی وِچلے، نچلے مخولیہ، واہیات، بے وثوق اور بدحواس ذرائع نے (ہمیشہ کی طرح نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر) مخبری دی ہے کہ (میاں باہر ٹپانے کے بعد) اپوزیشن کے لم لیٹ مجاہدین دسمبر کے بعد (ڈاکٹر کی ہدایات کے عین مطابق) مِنٹ مارگریٹا چھوڑ کر ریڈبُل غٹا غٹ کرنے کی تیاری کر رہے (شباز تیری پرواز سے سڑتا ہے زمانہ)- اب ایسے مخبر اور ایسی خبر پر یقین کون کرے؟

میرا کپتان سوہنا، کہتا تو ہے کہ مر جاؤں گا پر نہیں دونگا، استعفیٰ! میں ادھر وزیراعظم لگا ہوں کوئی مخول نہیں- ایک آواز پر چار پانچ لاکھ لُدھڑ آرام سے اکٹھا کر سکتا ہوں- میں جب کرکٹ میں آیا، تو آگے مافیا بیٹھا تھا، بیڑا غرق ہوا پڑا تھا،میں نے کپتانی شروع کی تو سب سے پہلے تو میں نے… کیسٹ جب ادھر تک پہنچی تو سرجی بے بسی بیزاری سے اوپر ہوا میں (کسی نادیدہ خلائی مخلوق کو) دیکھتے- بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں، پہلے بڑے شوق سے ریوائنڈ کرا کرا کے یہی کیسٹ سنتے اور سر دھنتے تھے- ویسے صدر علوی تو کہا کرتے ہیں کہ شادی اور الیکشن سے پہلے کے وعدے پورے کرنے کیلئے نہیں ہوتے- آفرین ہے سوہنا کپتان پر جو ذرا بھی بدلا ہو مگر:

بدلے بدلے مرے سرکار نظر آتے ہیں
گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں
سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شوق
اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں

کپتان نے سرجی کو اپنا بکرا دینے سے انکار تو کردیا مگر قریب ترین کو بھیجا انکی طرف منانے- قریب ترین کہتا: سرجی اینج نہ کرو! سرجی غصے ہوگئے کہ میرے مامے چاچے کے پُتر نہیں بیٹھے سارے ادارے میں- ادارے کے اندر بھی ایک ادارہ ہوتا ہے- جو پتا نہیں کس کے انڈر ہوتا ہے (کسی کے انڈر ہوتا بھی ہے کہ نہیں)- ہر چیز کو ٹیپ کرتے، انہیں سب پتا ہے جو ہوا اور جو ہو رہا- قریب ترین نے پوچھا کہ کیا ہورہا ہے، سرجی نے نیمے اور گنڈاپوری کی ایک تازہ واردات پر بھیجی گئی رپورٹ اٹھا کر سامنے پھینکی اور کہا ایسی رپورٹیں وہ ماہانہ بناتے ہیں- بزدار کیطرف سے بھائی، کزنز اور احسن جمیل گجر کو دئیے گئے فوائد کی فائل تو بہت موٹی ہو گئی ہے- قریب ترین کو چپ لگ گئی- سرجی نے سرد لہجے میں کہا دسمبر میں نیا چیرمین آرہا ہے، کولیگز میں میرا مذاق بن رہا ہے، خاندانی خیرخواہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ سوہنا تیرتا ہے تیرے ڈوبتا ہے ڈُوبے، ہم نیوٹرل ہو جائیں- قریب ترین کہنے لگا ٹھیک ہے، آپ نیوٹرل ہو جائیں اپوزیشن کو ہم خود سنبھال لیں گے- سرجی بولے، ایسا نہیں ہوتا اتنی سیاست تم نے بھی دیکھی، ادارے کیلئے بھی پاپولیرٹی اہم ہے- جب میاں غیرمقبول ہوا اور سوہنا پاپولر تو ہم لوگ بھی تمہارے ساتھ ہو گئے- اب تم غیرمقبول ہو رہے ہو تو جو پاپولر ہوگا سب اسکے ساتھ بنا کے رکھنے کیلئے تمہیں چھوڑ کر اسکے ساتھ ہو جائیں گے- برسوں کا کیریئر داؤ پر لگا ہوتا ہے، جہاں سٹیک اتنے ہائی ہوں وہاں آفیسرز لاتعلق نہیں رہ سکتے، چھپ چھپا کر اپنے لئے سٹرنگ پُلنگ کرتے ہیں، ساری بیوروکریسی ایسے ہی چلتی ہے-

بیوروکریٹ وڈے وڈے دفتروں سے اُٹھ کر کونوں کھدروں میں سرگوشیاں کر رہے آپس میں، کہ ابھی کپتان کی ہی سمجھیں یا نگران حکومت آ گئی ہے؟ کیونکہ ایک ہفتے میں 3 آرڈرز وزارت خارجہ، دفاع اور داخلہ کو ڈائریکٹ ملے سوہنے کو بائی پاس کرکے- کچھ افسر رابطہ کر رہے کہ پیرنی جی سے پتا کرو؟ اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ (جن افسروں کی پوسٹنگ پیروں کے ذریعے ہوئیں وہ پوسٹ آفس ہی رابط کریں گے)- سیاست، افسر شاہی، معیشت، صحافت ہر چیز کا تو پہیہ جام ہوا پڑا- پاکستان ضدیوں کے بیچ پھنس گیا- بات بقول سہیل وڑائچ اڑیل ہے ٹٹو سے مریل ہے ٹٹو کی طرف جاتی نظر آ رہی- دیکھیں کپتان اب ایمپائر کی انگلی پر قربانیاں دیتا، گھر جاتا یا میاں جی کی طرح ضد کر کے جیل (شرارتی لوگوں کیلئے سزا کا معقول انتظام ہے)-

‏‎شاہیاں نوں بچاون لئی کالے لال جھنڈیاں تے
نال کھیندے نے تے سانوں یار کہندے نے
اسیں اے سمجھدے نیں ساڈے خون پانی تے
ایناں دا تیل پانی اے بڑی لمّی کہانی اے
غلاماں دے غلاماں دی غلامی کردیاں ہویاں
وفا دی ریت چلی سی جوانی بیت چلی سی
کسے جگنو نے دسیا اے ہنیرا نال نیں جمّیا
ترے پُرکهاں دا ہانی اے بڑی لمّی کہانی اے

اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں