مائی بھاگی گیت سناتی رہی
مگر اسکے تھر کا بھاگ اربابوں، سرداروں اور وڈیروں کی اوطاق میں سوتا رہا …
دستکاری کرنے والے ہاتھ اور پانی کا مٹکا اٹھانے والے سر، بھیل ہو یا رانا، چندرمُکھی ہو یا زبیدہ، اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہے- انکے غم میں سروں کو پیٹتے رہے اور مردار جانوروں کو گِدھ بھی کھانے انکار کرتے رہے …
مائی بھاگی گیت سناتی رہی
ہسپتال بھرتے رہے خالی ہوتے رہے- ممتا، زندگی اور موت گندم کی بوریوں، روپیوں سے بھرے وعدوں اور لفافوں میں بند ہوتی رہی …
مائی بھاگی کھڑے نِیم کے نیچے گیت سناتی رہی!
کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی،
جاتوڑو بٹاڑو ماناں چھنے مانے دیکھ لےمیں نیم کے نیچے اکیلی کھڑی ہوں
میرے مسافر محبوب! غور سے دیکھ لے
لوٹے تو مجھے اسی ہی حالت میں پائے