344

یقینِ شفاء (پلاسیبو ایفیکٹ) کی دنیا

ابتدائے کائنات (بگ بینگ) کسی دیومالائی کہانی سے زیادہ دلچسپ ہے۔ انسانی دماغ کا ارتقاء بھی کم دلچسپ نہیں- سائنس ہمیں فطرت کے بارے میں جو بتاتی ہے، وہ شعبدہ بازوں کی جادوئی گولیوں، معجونوں اور پھونکوں سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اسکے لئے ایک چکر میڈیکل ریسرچ کی دنیا کے دلچسپ و عجیب علاقے کا ضروری ہے، جو ہمارے ذہن اور جسم کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس بات کے بارے میں بصیرت دیتا ہے کہ علاج کیا ہے۔ یہ پلاسیبو ایفیکٹ کی دنیا ہے، جو بتاتی ہے کہ علاج صرف جسم کا نہیں ہوتا۔

ذہن طاقتور شے ہے۔ کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو ذہن کو واہمہ یا سراب قرار دیتے ہیں۔ اس کو فلسفے میں eliminativism کی پوزیشن کہا جاتا ہے۔ البتہ ایسے دو تین سو فلسفیوں کو چھوڑ کر دنیا کے ساڑھے سات ارب لوگ جانتے ہیں کہ ذہن اصل شے ہے۔ ایسے چند فلسفیوں کے لئے پلاسیبو ایفیکٹ معمہ ہو سکتا ہے، ورنہ نہیں۔

میڈیکل سائنس کی تحقیق میں ذہن حصہ نہیں بن سکتا اور نہ بننا چاہیے۔ اس میں غرض اس طرح کی چیز دیکھنے سے ہے کہ کیا یہ اینٹی بائیوٹک اس پیتھوجن کے خلاف اثر رکھتی ہے یا نہیں۔ بائیومیڈیسن میں تحقیق کا یہ طریقہ انتہائی موؐثر رہا ہے۔ انفرادی مریض کی دیکھ بھال ایک مختلف معاملہ ہے۔

دوسری جنگِ عظیم میں ایک فیلڈ ہسپتال میں سُن کرنے والی دوا ختم ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر ہنری بیچر کو کچھ سمجھ نہیں آئی تو آپریشن کرنے سے پہلے انہوں نے مارفین کے بجائے نمکین پانی کا استعمال کر کے زخمیوں کے آپریشن شروع کر دئے۔ حیران کن بات: یہ طریقہ کام کر گیا۔ اس میں زخمی کی ٹانگ کاٹنے جیسے آپریشن بھی تھے۔

ڈینیل مویرمین جو پلاسیبو ایفیکٹ پر تحقیق کے سپیشلسٹ ہیں، انہوں نے ایک تجربہ السر کے مریضوں پر کیا۔ یہ پلاسیبو کی ڈوز کے کنٹرول پر کیا گیا تھا۔ اس کے نتائج خاصے حیران کن تھے کہ اگر دن میں ایک میٹھی گولی دی جائے تو اثر کم ہوتا ہے۔ اگر دن میں چار گولیاں دی جائیں اور اس کے گرد ceremony کو بڑھا دیا جائے تو اثر زیادہ ہوتا ہے۔ مویرمین نے گیسٹروسکوپی کا کیمرہ ڈال کر پہلے اور بعد میں فرق چیک کئے۔ السر کو پڑنے والا اثر اصل تھا۔ مویرمین کی سٹڈی کو کئی جگہوں پر دہرایا جا چکا ہے۔ ہر بار ایسے ہی نتائج نکلے ہیں۔

چار گولیاں کیوں بہتر اثر رکھتی ہیں؟ پلاسیبو ایفیکٹ علاج کے کلچرل معنی کے بارے میں بھی ہے۔ مریض صرف گولی نہیں نگل رہا۔ اس کے ساتھ توقع بھی نگل رہا ہے۔ اپنی صحت کے بارے میں یقین صحت پر اثر ڈالتا ہے۔

یہ اثر اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ گولی کا رنگ کیا ہے، اس کی شکل کیا ہے۔ اس سے بھی فرق پڑتا ہے۔ کلورڈیازی پوکسائیڈ اعصابی تناوٗ کم کرنے والی دوا ہے۔ 1970 میں اس کی گولی والی شکل کے ساتھ کیپسول والی شکل متعارف کروائی گئی۔ دونوں میں اجزاء بالکل ایک ہی تھے۔ کیپسول والی دوا کا اثر زیادہ نکلا۔ یہ ذرا زیادہ “سائنسی” قسم کی شکل لگتی تھی۔

مہنگی دوا کا اثر سستی دوا سے زیادہ ہوتا ہے۔ (ڈبے میں گولی ایک ہی ہو، صرف قیمت کا لیبل فرق ہو) اچھے برینڈ نیم کی دوا کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے بھی آگے چلیں تو انتہائی عجیب نتیجہ 1990 کی دہائی میں سامنے آیا۔ ایسے مریض جن میں پیس میکر لگایا گیا تھا لیکن آن نہیں کیا گیا تھا، اپنے آپ کو بہتر محسوس کر رہے تھے۔ (اتنا نہیں جتنا آن ہونے والے)۔ حال میں انجیوپلاسٹی کے حوالے سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ جعلی اور اصلی آپریشن ٹھیک کرنے میں ایک ہی جتنا اثر رکھتے ہیں۔

مکھرجی نے کینسر پر اپنی کتاب لکھی ہے اور ایک حصے میں اس ایفیکٹ کو موضوع بنایا ہے۔ مریض کا دوا سے ریسپانس ہونے میں ایک فیکٹر مریض کی اپنی قوتِ ارادی ہے۔

میڈیسن میں اس چیز کو زمانہ قدیم سے جانا جاتا ہے۔ مریض سے بات کیسے کرنی ہے۔ تسلی کیسے دینی ہے۔ حوصلہ کیسے بلند رکھنا ہے۔ یہ سب مریض کی دیکھ بھال کے ٹاپک ہیں۔ (ان کو نظرانداز کئے جانا بہت عام ہے)۔

مریض معالج کے اعتماد سے اثر لیتا ہے۔ گرائل اور کاٹان نے اس پر ڈینٹل انجکشن دیتے ہوئی تجربہ کیا۔ میٹھی گولی دیتے ہوئے کچھ مریضوں کو کہا گیا کہ “یہ نئی گولی آئی ہے۔ بہت ہی موثر اور فوری اثر کرتی ہے”۔ کچھ کو یہ کہ “یہ نئی گولی آئی ہے۔ ابھی تک مجھے اچھے نتائج نظر نہیں آئے”۔ پہلے گروپ میں اس کا اثر زیادہ تھا۔ کم خوف، کم بے چینی، کم تکلیف۔

ڈاکٹر کا صرف کہنا ہی ضروری نہیں۔ ہمارے رویے سے انفارمیشن چھلک جاتی ہے۔ گھبرائی ہوئی مسکراہٹ، تنی ہوئی بھویں، بہت کچھ کہہ دیتی ہیں۔ اس کے لئے گریسلی نے ایک بہت دلچسپ تجربہ 1985 میں کیا۔ عقل داڑھ نکلوانے والوں میں تین گروپ بنائے۔ ایک کو نمکین پانی ( جس کا کوئی اثر نہیں)، ایک کو فینٹنائل (جو پین کِلر ہے)، ایک کو نالوکسون (جو اوپیئٹ بلاکر ہے اور تکلیف بڑھا سکتی ہے)۔ ان گروپس میں ڈاکٹروں کے دو گروپ بنائے۔ ایک وہ جس کو بتایا گیا تھا کہ وہ مریض کو کیا دے رہے ہیں۔ دوسرا وہ جس کو غلط بتایا گیا تھا کہ وہ مریض کو کیا دے رہے ہیں۔ نتیجہ: جی آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا۔ ڈاکٹر کا “یقین” اس رزلٹ میں جھلک رہا تھا۔

اسی وجہ سے میڈیکل ریسرچ میں عام طور پر ڈبل بلائنڈ سٹڈی کی جاتی ہے۔ نہ دوا لینے والے کو پتا ہوتا ہے کہ دوا کیا ہے اور نہ ہی دوا دینے والے کو۔

ڈاکٹر کا بات کرنے کا طریقہ ہی نتائج بدل دیتا ہے۔ 1987 میں تھامس نے “پلاسیبو تشخیص” کا تجربہ کیا۔ دو سو ایسے مریض جن کو کچھ ایبنارمل علامات تھیں لیکن بیماری کا پتا نہیں تھا،ان کو دو الگ گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کو بتایا گیا کہ “مجھے علم نہیں کہ آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے”۔ دوسرے گروپ کو بتایا گیا کہ پتہ لگ گیا ہے کہ مسئلہ کیا ہے، تفصیل سے بتایا گیا کہ ان کو عارضہ کیا ہے اور ساتھ اعتماد سے بتایا گیا کہ اس میں چند روز میں مریض خود ہی بھلا چنگا ہو جاتا ہے۔ دو ہفتے کے بعد فالو اپ میں پہلے گروپ میں سے 39 مریض بہتر ہو گئے تھے۔ دوسرے میں سے 64 مریض۔

ہم سب، بلااستثنا، پلاسیبو ایفکٹ سے متاثر ہوتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری صرف ذہن میں ہے؟ نہیں ،نہیں، نہیں۔ بیماری فزیکل ہے۔ اگرچہ اس پر تجربات آسان نہیں لیکن ہمیں اس کی فزیکل وجوہات کا کچھ علم ہے۔ ذہن جسم سے آنے والے تکلیف کے سگنل نظرانداز کر سکتا ہے۔ جسم کا کیمیکل توازن، ہارمون کے اخراج یا روکے جانے سے تبدیل کر سکتا ہے۔ امیون سسٹم میں تبدیلی آتی ہے۔ بالآخر یہ فزیکل تبدیلیاں ہیں جو صحتیابی میں مددگار ہو سکتی ہیں۔

محض علاج پر مضبوط یقین شفا بن جاتا ہے- یہ پلاسیبو ایفیکٹ ہے۔ اس کی ایک بڑی تاریک سائیڈ ہے۔ کوئی اگر ٹھیک ہوا تو اس کا مطلب کہ اس کو یقین تھا۔ کوئی اگر ٹھیک نہیں ہوا تو اس کا مطلب کہ اس کو یقین نہیں تھا۔ اس فقرے سے علاج کی ذمہ داری معالج پر نہیں، مریض پر آ جاتی ہے۔

قوتِ ارادی مدد ضرور کرتی ہے۔ ٹھیک بھی کر سکتی ہے۔ لیکن بغیر قوتِ ارادی والے کے لئے بھی اینٹی بائیوٹک پیتھوجین کو مار دے گی۔ بے پناہ قوتِ ارادی رکھنے والا مریض بیماری کے ہاتھوں شکست کھا سکتا ہے۔ کسی کے بیمار رہنے میں مریض کا قصور نہیں ہے۔

تو پھر کیا اس میں متبادل علاج کا کاروبار کرنے والوں کے لئے کوئی خوشخبری ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ البتہ اس ایفیکٹ میں میڈیکل کے پروفیشن سے وابستہ افراد کیلئے سیکھنے کو ہے۔

تو پھر کیا یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ کونسا طریقہ علاج اصل ہے اور کونسا طفل تسلی؟ انفرادی لیول سے بالاتر ہو کر تجزیہ کرنے کے لئے ایک نظر میں پوری دنیا میں دیکھ سکتے ہیں کہ کونسا طریقہ کہاں پر زیادہ موثر ہے۔ بالفرض انڈیا سے تعلق رکھنے والا کوئی دعویٰ کرے کہ آئیورویدک طریقہ کسی بھی میڈیکل طریقے سے زیادہ کارگر ہے تو اس دعوے کے لئے ایک آسان چیک ہے۔ آئیورویدک کی پریکٹس انڈیا میں عام ہے۔ انڈیا سے باہر یہ طریقہ کم ہی استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو ہم توقع یہ رکھیں گے کہ انڈیا میں مریضوں کی شفایابی کی شرح دنیا بھر سے بہتر ہونی چاہیے۔ لیکن اگر میٹا انالیسز کر کے دیکھا جائے تو آئیورویدک اس ٹیسٹ کو پاس نہیں کرتی۔ اسی طرح کوئی طریقہ علاج کسی ایک جگہ پر پایا جاتا ہے جس سے دوسرے محروم ہیں تو ہم توقع رکھیں گے کہ وہاں پر لوگوں کی صحت بہتر ہو گی یا اوسط زندگی زیادہ ہو گی۔ اس ٹیسٹ کو جدید میڈیکل سائنس پاس کرتی ہے۔ جہاں پر میڈیکل کی سہولیات بہتر ہیں، وہاں پر شفایابی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔

مریض کی مکمل کئیر جسم کی بھی ہوتی ہے اور ذہن کی بھی۔ اس کے جسم والے حصے کا حل ایویڈنس بیسڈ میڈیسن ہی ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں